مہلت نہیں رہی !
پہلی بات یہ کہ پاکستان کا عام آدمی اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے روایتی دعویداروں کے اشارہ ابرو سے بے نیاز ہوکر خود بھی اپنے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنی قیادت خود کرسکتا ہے۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ آدمی تمام تر مایوسی، لاچاری اور روزمرہ مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پرامن طور پر ایک اجتماعی سفر کا حصہ بن سکتا ہے اور حکومتیں اگر اس پر اعتماد کریں تو وہ اب بھی حکومتوں کو کچے پکے ، آدھے پونے وعدے وفا کرنے کی مہلت دے سکتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ عام آدمی نے ساٹھ برس میں آج تک روٹی، کپڑے یا مکان کے لیے پانچ دن کا لانگ مارچ نہیں کیا۔بلکہ مارے غیرت کے اپنا تماشا بنانے کے بجائے گھر کے اندر بھوکے رہنے یا خودکشی کرنے یا بچوں کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔
البتہ حصولِ انصاف کے لیے اسے جون کی دوپہر میں سفر کی صعوبتیں گلے لگانے سے ھچکچاہٹ نہیں ہوئی۔شائد اسے آج بھی امید ہے کہ انصاف کی مملکت ہوگی تو ایک روٹی میں سے بھی اسے اپنے حصے کا ٹکڑا مل جائےگا۔اور جنگل کا قانون ہوا تو طاقتور اسکا فاقہ ، تن کا ننگ، بے گھری اور عزت بھی بیچ کھائے گا۔لانگ مارچ میں جتنے لوگ شامل ہوئے ان میں سے کسی کو بھی توقع نہیں کہ سپریم کورٹ میں سترہ کے بجائے انتیس جج بیٹھ گئے تو سب ٹھیک ہوجائےگا۔وہ صرف اسے لیے اس سفر کا حصہ بنے کہ زندگی پر ڈاکہ ڈالنے والے اب انکے خواب بھی ریپ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
عام آدمی کو اب اقتصادی و قانونی موشگافیوں، دلداریوں اور مجبوری کی کہانیوں سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔اس پر سب کچھ کھل چکا ہے۔اسے معلوم ہوگیا ہے کہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو محض بیرونی آزادی ملی تھی۔اندرونی آزادی اب بھی ایک سراب ہے۔لیکن وہ پھر بھی فراخ دلی دکھا رہا ہے۔
ایسے لشکر سے ڈرنا چاہیے جو ہدف تک پہنچ کر لوٹ جائے۔ایسے لشکر کے صبر اور اعتماد کو کمزوری سمجھنے کا نتیجہ تاریخ میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے۔ایسا لشکر سٹیٹس کو یا جاری نظام برقرار رکھنے کے حامیوں پر ایک مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔دو مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔لیکن تیسری مرتبہ اپنا نظریہ، اپنی قیادت اور اپنا نظام ساتھ لاتا ہے اور ریاست کے ستونوں کو اپنےساتھ لے جاتا ہے۔
لانگ مارچ کے پرامن اختتام پر حکومت کو سکھ کا سانس لینے کے بجائے تشویش ہونی چاہیے۔یہ اختتام نہیں مہلت ہے۔سو دن کی ترجیحات مکمل کرنے کی مہلت۔عدلیہ کو خودمختار کرنے کی مہلت۔بھوک،ننگ، جہالت ، بیماری اور عدم تحفظ کے خلاف ترجیحات وضع کرنے اور قومی حقوق دینے کی مہلت۔اگر اب بھی مسخرہ پن جاری رہا تو پھر یوں بھی ہوسکتا ہے کہ
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی۔
No comments:
Post a Comment